تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ۫ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرُۨ ۙ﴿۱﴾

(1 - الملک)

Qari:


Blessed is He in whose hand is dominion, and He is over all things competent -

وہ (خدا) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے بڑی برکت والا ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے

[تَبٰرَكَ الَّذِيْ: بہت بابرکت ہے وہ ذات] [ بِيَدِهِ: جس کے ہاتھ میں ہے] [ الْمُلْكُ: ساری بادشاہت] [ وَهُوَ: اور وہ] [ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ: ہر چیز پر] [ قَدِيْرُۨ: قدرت رکھنے والا ہے]

Tafseer / Commentary

مسند احمد میں بروایت حضرت ابوہریرہ (رض) مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا قرآن کریم میں تیس آیتوں کی ایک سورت ہے جو اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرتی رہے گی یہاں تک کہ اسے بخش دیا جائے وہ سورت آیت ( تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ ۡ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۨ ۝ ۙ) 67- الملك:1) ، ہے۔ ابو داؤد، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن کہتے ہیں ۔ تاریخ ابن عساکر میں حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا تم سے پہلے زمانے کا ایک شخص مر گیا جس کے ساتھ کتاب اللہ میں سوائے سورۃ (تبارک الذی) کے اور کوئی چیز نہ تھی جب اسے دفن کیا گیا اور فرشتہ اس کے پاس آیا تو یہ سورت اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ فرشتے نے کہا تو کتاب اللہ ہے میں تجھے ناراض کرنا نہیں چاہتا تجھے معلوم ہے کہ تیرے یا اپنے یا اس میت کے کسی نفع نقصان کا مجھے اختیار نہیں اگر تو یہی چاہتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر اس کی سفارش کر چنانچہ یہ سورت اللہ عزوجل کے پاس جائے گی اور کہے گی اللہ تیری کتاب میں سے مجھے فلاں شخص نے سیکھا پڑھا اب کیا تو اسے آگ میں جلائے گا ؟ کیا باوجودیکہ میں اس کے سینے میں محفوظ ہوں تو اسے عذاب کرے گا ؟ اگر یہی کرنا ہے تو مجھے اپنی کتاب میں سے مٹا ڈال اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اس وقت سخت غضبناک ہے۔ یہ کہے گی مجھے حق ہے کہ میں اپنی ناراضی ظاہر کروں ۔ پس جناب باری کا ارشاد ہوگا کہ جا میں نے اسے تجھے دیا اور تیری سفارش قبول کر لی۔ اب یہ سورت اس کے پاس آ جائے گی اور عذاب کے فرشتے کو ہٹا دے گی اور اس کے منہ سے اپنا منہ ملا کر کہے گی اس منہ کو مرحبا ہو یہی میری تلاوت کیا کرتا تھا اس سینے کو صد شاباش ہو اس نے مجھے یاد کر رکھا تھا، ان دونوں قدموں کو مبارکباد ہو، یہیں کھڑے ہو کر راتوں کو میری قرأت کے ساتھ قیام کیا کرتے تھے اور یہ سورت قبر میں اس کی مونس اور غم خوار بن جائے گی اور کوئی ڈر و دہشت اسے نہیں پہنچنے دے گی اس حدیث کے سنتے ہی تمام چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام نے اسے سیکھ لیا اس کا نام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے منجیہ رکھا، یعنی نجات دلوانے والی سورت، لیکن یہ یاد رہے کہ یہ حدیث بہت ہی منکر ہے اس کے راوی فرات بن سائب کو امام احمد امام یحییٰ بن معین، امام بخاری، امام ابو حاتم، امام دار قطنی وغیرہ ضعیف کہتے ہیں، اور دوسری سند سے مروی ہے کہ یہ قول امام زہری کا ہے مرفوع حدیث نہیں، امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب "اثبات عذاب قبر" میں حضرت ابن مسعود (رض) سے ایک حدیث مرفوع بھی بیان کی ہے اور موقوف بھی۔ اس میں بھی جو مضمون ہے وہ اس کی شہادت میں کام دے سکتا ہے۔ ہم نے اسے احکام کبریٰ کی کتاب الجنائز میں بیان کیا ہے وللہ الحمد طبرانی میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں کہ قرآن کی ایک سورت ہے جس نے اپنے پڑھنے والے کی طرف سے اللہ سے لڑ جھگڑ کر اسے جنت میں داخل کرایا وہ سورۃ تبارک ہے، ترمذی شریف میں ہے کہ کسی صحابی نے جنگل میں ایک ڈیرا لگایا جہاں ایک قبر بھی تھی لیکن اسے علم نہ تھا اس نے سنا کہ کوئی شخص سورۃ ملک پڑھ رہا ہے اور اس نے اسے پورا پڑھا اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سارا واقعہ بیان کیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا یہ سورت روکنے والی ہے یہ سورت نجات دلوانے والی ہے جو عذاب قبر سے نجات دلواتی ہے، یہ حدیث غریب ہے، ترمذی کی دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے سورۃ (الم تنزیل) ، اور سورۃ (ملك) ضرور پڑھ لیا کرتے تھے، حضرت طاؤس کی روایت ہے کہ یہ دونوں سورتیں قرآن کی اور سورتوں پر ستر نیکیاں فضیلت رکھتی ہیں، طبرانی میں ہے حضور فرماتے ہیں میری دلی منشا ہے کہ یہ سورت میری امت میں سے ہر ایک کے دل میں رہے یعنی سورۃ تبارک ۔ یہ حدیث بھی غریب ہے اور اس کا راوی ابراہیم ضعیف ہے، اور اسی جیسی روایت سورۃ یس کی تفسیر میں گذر چکی ہے۔ مسند عبد بن حمید میں ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ایک شخص سے کہا آمین تجھے ایک ایسا تحفہ دوں کہ تو خوش ہو جائے (سورة ملك) پڑھا کر اور اسے اپنے اہل و عیال کو اولاد کو گھر کے بچوں کو اور پڑوسیوں کو سکھا یہ سورت نجات دلوانے والی اور شفاعت کرنے والی ہے قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کی طرف سے اللہ سے سفارش کرے گی اور اسے عذاب آگ سے بچا لے گی اور عذاب قبر سے بھی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ میں تو چاہتا ہوں کہ میرے ایک ایک امتی کے دل میں یہ ہو ۔

بہتر عمل کی آزمائش کا نام زندگی ہے
اللہ تعالیٰ اپنی تعریف بیان فرما رہا ہے اور خبر دے رہا ہے کہ تمام مخلوق پر اسی کا قبضہ ہے جو چاہے کرے۔ کوئی اس کے احکام کو ٹال نہیں سکتا اس کے غلبہ اور حکمت اور عدل کی وجہ سے اس سے کوئی باز پرس بھی نہیں کر سکتا وہ تمام چیزوں پر قدرت رکھنے والا ہے۔ پھر خود موت و حیات کا پیدا کرنا بیان کر رہا ہے، اس آیت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ موت ایک وجودی امر ہے کیونکہ وہ بھی پیدا کردہ شدہ ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمام مخلوق کو عدم سے وجود میں لایا تاکہ اچھے اعمال والوں کا امتحان ہو جائے جیسے اور جگہ ہے آیت ( كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ باللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ 28؀) 2- البقرة:28) ترجمہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو؟ تم تو مردہ تھے پھر اس نے تمہیں زندہ کر دیا، پس پہلے حال یعنی عدم کو یہاں بھی موت کہا گیا اور اس پیدائش کو حیات کہا گیا اسی لئے اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے آیت (ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 28؀) 2- البقرة:28) ترجمہ وہ پھر تمہیں مار ڈالے گا اور پھر زندہ کر دے گا، ابن ابی حاتم میں ہے رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں کہ بنی آدم موت کی ذلت میں تھے۔ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے حیات کا گھر بنا دیا پھر موت کا اور آخرت کو جزا کا پھر بقاء کا۔ لیکن یہی روایت اور جگہ حضرت قتادہ کا اپنا قول ہونا بیان کی گئی ہے، آزمائش اس امر کی ہے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے؟ اکثر عمل والا نہیں بلکہ بہتر عمل والا، وہ باوجود غالب اور بلند جناب ہونے کے پھر عاصیوں اور سرتاب لوگوں کے لئے، جب وہ رجوع کریں اور توبہ کریں معاف کرنے اور بخشنے والا بھی ہے۔ جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے ایک پر ایک گو بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک پر ایک ملا ہوا ہے لیکن دوسرا قول یہ ہے کہ درمیان میں جگہ ہے اور ایک دوسرے کے اوپر فاصلہ ہے، زیادہ صحیح یہی قول ہے، اور حدیث معراج وغیرہ سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے، پروردگار کی مخلوق میں تو کوئی نقصان نہ پائے گا بلکہ تو دیکھے گا کہ وہ برابر ہے، نہ ہیر پھیر ہے نہ مخلافت اور بےربطی ہے، نہ نقصان اور عیب اور خلل ہے۔ اپنی نظر آسمان کی طرف ڈال اور غور سے دیکھ کر کہیں کوئی عیب ٹوٹ پھوٹ جوڑ توڑ شگاف و سوراخ دکھائی دیتا ہے؟ پھر بھی اگر شک رہے تو دو دفعہ دیکھ لے کوئی نقصان نظر نہ آئے گا تو نے خوب نظریں جما کر ٹٹول کر دیکھا ہو پھر بھی ناممکن ہے کہ تجھے کوئی شکست و ریخت نظر آئے تیری نگاہیں تھک کر اور ناکام ہو کر نیچی ہو جائیں گی۔ نقصان کی نفی کر کے اب کمال کا اثبات ہو رہا ہے تو فرمایا آسمان دنیا کو ہم نے ان قدرتی چراغوں یعنی ستاروں سے بارونق بنا رکھا ہے جن میں بعض چلنے پھرنے والے ہیں اور بعض ایک جا ٹھہرے رہنے والے ہیں، پھر ان کا ایک اور فائدہ بیان ہو رہا ہے کہ ان سے شیطانوں کو مارا جاتا ہے ان میں سے شعلے نکل کر ان پر گرتے ہیں یہ نہیں کہ خود ستارہ ان پر ٹوٹے واللہ اعلم۔ شیطین کی دنیا میں یہ رسوائی تو دیکھتے ہی ہو آخرت میں بھی ان کے لئے جلانے والا عذاب ہے۔ جیسے سورۃ صافات کے شروع میں ہے کہ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت دی ہے اور سرکش شیطانوں کی حفاظت میں انہیں رکھا ہے، وہ بلند و بالا فرشتوں کی باتیں سن نہیں سکتے اور چاروں طرف سے حملہ کر کے بھگا دیئے جاتے ہیں اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے اگر کوئی ان میں سے ایک آدھ بات اچک کر لے بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے چمکدار تیز شعلہ لپکتا ہے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ستارے تین فائدوں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، آسمان کی زینت، شیطانوں کی مار اور راہ پانے کے نشانات۔ جس شخص نے اس کے سوا کوئی اور بات تلاش کی اس نے رائے کی پیروی کی اور اپنا صحیح حصہ کھو دیا اور باوجود علم نہ ہونے کی تکلف کیا (ابن جریر اور ابن ابی حاتم)

Select your favorite tafseer