Qari: |
And Allah had already taken a covenant from the Children of Israel, and We delegated from among them twelve leaders. And Allah said, "I am with you. If you establish prayer and give zakah and believe in My messengers and support them and loan Allah a goodly loan, I will surely remove from you your misdeeds and admit you to gardens beneath which rivers flow. But whoever of you disbelieves after that has certainly strayed from the soundness of the way."
اور خدا نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا اور ان میں ہم نے بارہ سردار مقرر کئے پھر خدا نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہو گے اور میرے پیغمبروں پر ایمان لاؤ گے اور ان کی مدد کرو گے اور خدا کو قرض حسنہ دو گے تو میں تم سے تمہارے گناہ دور کر دوں گا اور تم کو بہشتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں پھر جس نے اس کے بعد تم میں سے کفر کیا وہ سیدھے رستے سے بھٹک گیا
[وَلَقَدْ: اور البتہ] [اَخَذَ اللّٰهُ: اللہ نے لیا] [مِيْثَاقَ: عہد] [بَنِيْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ: بنی اسرائیل] [وَبَعَثْنَا: اور ہم نے مقرر کیے] [مِنْهُمُ: ان سے] [اثْنَيْ عَشَرَ: بارہ] [نَقِيْبًا: سردار] [وَقَالَ: اور کہا] [اللّٰهُ: اللہ] [اِنِّىْ مَعَكُمْ: بیشک میں تمہارے ساتھ] [لَىِٕنْ: اگر] [اَقَمْــتُمُ: نماز قائم رکھو گے] [الصَّلٰوةَ: نماز] [وَاٰتَيْتُمُ: اور دیتے رہو گے] [الزَّكٰوةَ: زکوۃ] [وَاٰمَنْتُمْ: اور ایمان لاؤ گے] [بِرُسُلِيْ: میرے رسولوں پر] [وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ: اور ان کی مدد کرو گے] [وَاَقْرَضْتُمُ: اور قرض دو گے] [اللّٰهَ: اللہ] [قَرْضًا: قرض] [حَسَـنًا: حسنہ] [لَّاُكَفِّرَنَّ: میں ضرور دور کروں گا] [عَنْكُمْ: تم سے] [سَيِّاٰتِكُمْ: تمہارے گناہ] [ وَلَاُدْخِلَنَّكُمْ: اور ضرور داخل کردوں گا تمہیں] [جَنّٰتٍ: باغات] [تَجْرِيْ: بہتی ہیں] [مِنْ: سے] [تَحْتِهَا: ان کے نیچے] [الْاَنْھٰرُ: نہریں] [فَمَنْ: پھر جو۔ جس] [كَفَرَ: کفر کیا] [بَعْدَ ذٰلِكَ: اس کے بعد] [مِنْكُمْ: تم میں سے] [فَقَدْ ضَلَّ: بیشک گمراہ ہوا] [سَوَاۗءَ: سیدھا] [السَّبِيْلِ: راستہ]
عہد شکن لوگ؟ اور امام مہدی کون؟
اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو عہد و پیمانے کی وفاداری ، حق پر مستقیم رہنے اور عدل کی شہادت دینے کا حکم دیا تھا۔ ساتھ ہی اپنی ظاہری و باطنی نعمتوں کو یاد دلایا تھا۔ تو اب ان آیتوں میں ان سے پہلے کے اہل کتاب سے جو عہد و میثاق لیا تھا ، اس کی حقیقت و کیفیت کو بیان فرما رہا ہے ، پھر جبکہ انہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان توڑ ڈالے تو ان کا کیا حشر ہوا ، اسے بیان فرما کر گویا مسلمانوں کو عہد شکنی سے روکتا ہے۔ ان کے بارہ سردار تھے۔ یعنی بارہ قبیلوں کے بارہ چودھری تھے جو ان سے ان کی بیعت کو پورا کراتے تھے کہ یہ اللہ اور رسول کے تابع فرمان رہیں اور کتاب اللہ کی اتباع کرتے رہیں۔ حضرت موسیٰ جب سرکشوں سے لڑنے کیلئے گئے تب ہر قبیلہ میں سے ایک ایک سردار منتخب کر گئے تھے۔ اوبیل قبیلے کا سردار شامون بن اکون تھا ، شمعونیوں کا چودھری شافاط بن جدی ، یہودا کا کالب بن یوحنا ، فیخائیل کا ابن یوسف اور افرایم کا یوشع بن نون اور بنیامین کے قبیلے کا چودھری قنطمی بن وفون ، زبولون کا جدی بن شوری ، منشاء کاجدی بن سوسی ، دان حملاسل کا ابن حمل ، اشار کا ساطور ، تفتای کا بحر اور یاسخر کالابل۔ توراۃ کے چوتھے جز میں بنو اسرائیل کے قبیلوں کے سرداروں کے نام مذکور ہیں۔ جو ان ناموں سے قدرے مختلف ہیں۔ واللہ اعلم۔ موجودہ تورات کے نام یہ ہیں۔ بنو ادبیل پر صونی بن سادون ، بنی شمعون پر شموال بن صور ، بنو یہود پر حشون بن عمیاذب ، بنو یساخر پر شال بن صاعون ، بنو زبولوں پر الیاب بن حالوب ، بنو افرایم پر منشا بن عنہور ، بنو منشاء پر حمائیل بنو بیبا میں پر ابیدن ، بنودان پر جعیذ ربنو اشاذ نحایل۔ بون کان پر سیف بن دعوابیل ، بنو نفعالی پر اجذع۔ یاد رہے کہ لیلتہ العقبہ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے بیعت لی اس وقت ان کے سردار بھی بارہ ہی تھے۔ تین قبیلہ اوس کے۔ حضرت اسید بن حضیر ، حضرت سعد بنی خیشمہ اور حضرت رفاعہ بن عبد المنذر اور نو سردار قبیلہ خزرج تھے۔ ابو امامہ ، اسعد بن زرارہ ، سعد بن ربیع ، عبداللہ بن رواحہ ، رافع بن مالک بن عجلان براء بن معرور عبادہ بن صامت ، سعد بن عبادہ ، عبداللہ بن عمرو بن حرام ، منذربن عمرو بن حنیش اجمعین۔ انہی سرداروں نے اپنی اپنی قوم کی طرف سے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے فرامین سننے اور ماننے کی بیعت کی ، حضرت مسروق فرماتے ہیں ہم لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے تھے ، آپ ہمیں اس وقت قرآن پڑھا رہے تھے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی پوچھا ہے کہ اس امت کے کتنے خلیفہ ہوں گے؟ حضرت عبداللہ نے فرمایا میں جب سے عراق آیا ہوں ، اس سوال کو بجز تیرے کسی نے نہیں پوچھا ، ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا تھا تو آپ نے فرمایا ، بارہ ہوں گے ، جتنی گنتی بنو اسرائیل کے نقیبوں کی تھی۔ یہ روایت سنداً غریب ہے ، لیکن مضمون حدیث بخاری اور مسلم کی روایت سے بھی ثابت ہے ، جابر بن سمرہ فرماتے ہیں "میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، لوگوں کا کام چلتا رہے گا ، جب تک ان کے والی بارہ شخص نہ ہو لیں ، پھر ایک لفظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نہ سن سکا تو میں نے دوسروں سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اب کونسا لفظ فرمایا ، انہوں نے جواب دیا یہ فرمایا کہ یہ سب قریش ہوں گے۔ " صحیح مسلم میں یہی لفظ ہیں۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بارہ خلیفہ صالح نیک بخت ہونگے۔ جو حق کو قائم کریں گے اور لوگوں میں عدل کرینگے۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ سب پے درپے یکے بعد دیگرے ہی ہوں۔ پس چار خلفاء تو پے درپے حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت جن کی خلافت بطریق نبوت رہی۔ انہی بارہ میں سے پانچویں حضرت عمر بن عبد العزیز ہیں ۔ بنو عباس میں سے بھی بعض اسی طرح کے خلیفہ ہوئے ہیں اور قیامت سے پہلے پہلے ان بارہ کی تعداد پوری ہونی ضروری ہے اور انہی میں سے حضرت امام مہدی ہیں ، جن کی بشارت احادیث میں آ چکی ہے ان کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہوگا اور ان کے والد کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کا ہوگا ، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے حالانکہ اس سے پہلے وہ ظلم و جبر سے پُر ہوگی لیکن اس سے شیعوں کا امام منتظر مراد نہیں ، اس کی تو دراصل کوئی حقیقت ہی نہیں ، نہ سرے سے اس کا کوئی وجود ہے ، بلکہ یہ تو صرف شیعہ کی وہم پرستی اور ان کا تخیل ہے ، نہ اس حدیث سے شیعوں کے فرقے اثنا عشریہ کے ائمہ مراد ہیں۔ اس حدیث کو ان ائمہ پر محمول کرنا بھی شیعوں کے اس فرقہ کی بناوٹ ہے جو ان کی کم عقلی اور جہالت کا کرشمہ ہے۔ توراۃ میں حضرت اسمعیل کی بشارت کے ساتھ ہی مرقوم ہے کہ ان کی نسل میں سے بارہ بڑے شخص ہونگے ، اسے مراد بھی یہی مسلمانوں کے بارہ قریشی بادشاہ ہیں لیکن جو یہودی مسلمان ہوئے تھے ، وہ اپنے اسلام میں کچے اور جاہل بھی تھے ، انہوں نے شیعوں کے کان میں کہیں یہ صور پھونک دیا اور وہ سمجھ بیٹھے کہ اس سے مراد ان کے بارہ امام ہیں ، ورنہ حدیثیں اس کے واضح خلاف موجود ہیں۔ اب اس عہد و پیمان کا ذکر ہو رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے یہودیوں سے لیا تھا کہ وہ نمازیں پڑھتے رہیں ، زکوٰۃ دیتے رہیں ، اللہ کے رسولوں کی تصدیق کریں ، ان کی نصرت و اعانت کریں اور اللہ کی مرضی کے کاموں میں اپنا مال خرچ کریں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ کی مدد و نصرت ان کے ساتھ رہے گی ، ان کے گناہ معاف ہونگے اور یہ جنتوں میں داخل کئے جائیں گے ، مقصود حاصل ہوگا اور خوف زائل ہوگا ، لیکن اگر وہ اس عہد و پیما کے بعد پھر گئے اور اسے غیر معروف کر دیا تو یقینا وہ حق سے دور ہو جائیں گے ، بھٹک اور بہک جائیں گے۔ چنانچہ یہی ہوا کہ انہوں نے میثاق توڑ دیا ، وعدہ خلافی کی تو ان پر اللہ کی لعنت نازل ہوئی ، ہدایت سے دور ہو گئے ، ان کے دل سخت ہو گئے اور وعظ و پند سے مستفید نہ ہو سکے ، سمجھ بگڑ گئی ، اللہ کی باتوں میں ہیر پھیر کرنے لگے ، باطل تاویلیں گھڑنے لگے ، جو مراد حقیقی تھی ، اس سے کلام اللہ کو پھیر کر اور ہی مطلب سمجھنے سمجھانے لگے ، اللہ کا نام لے کر وہ مسائل بیان کرنے لگے ، جو مراد حقیقی تھی ، اس سے کلام اللہ کو پھیر کر اور ہی مطلب سمجھنے سمجھانے لگے ، اللہ کا نام لے کر وہ مسائل بیان کرنے لگے جو اللہ کے بتائے ہوئے نہ تھے ، یہاں تک کہ اللہ کی کتاب ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی ، وہ اس سے بےعمل چھوٹ جانے کی توجہ سے نہ تو دل ٹھیک رہے ، نہ فطرت اچھی رہی۔ نہ خلوص و اخلاص رہا ، غداری اور مکاری کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ نت نئے جال نبی صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب نبی کے خلاف بنتے رہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوتا ہے کہ آپ ان سے چشم پوشی کیجئے ، یہی معاملہ ان کے ساتھ اچھا ہے ، جیسے حضرت عمر فاروق سے مروی ہے کہ جو تجھ سے اللہ کے فرمان کے خلاف سلوک کرے تو اس سے حکم الٰہی کی بجا آوری کے ماتحت سلوک کر۔ اس میں ایک بڑی مصلحت یہ بھی ہے کہ ممکن ہے ان کے دل کھچ آئیں ، ہدایت نصیب ہو جائے اور حق کی طرف آ جائیں۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ یعنی دوسروں کی بدسلوکی سے چشم پوشی کر کے خود نیا سلوک کرنے والے اللہ کے محبوب ہیں۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں "درگزر کرنے کا حکم جہاد کی آیت سے منسوب ہے۔ " پھر ارشاد ہوتا ہے کہ "ان نصرانیوں سے بھی ہم نے وعدہ لیا تھا کہ جو رسول آئے گا ، یہ اس پر ایمان لائیں گے ، اس کی مدد کرینگے اور اس کی باتیں مانیں گے۔ " لیکن انہوں نے بھی یہودیوں کی طرح بد عہدی کی ، جس کی سزا میں ہم نے ان میں آپس میں عداوت ڈال دی جو قیامت تک جاری رہے گی۔ ان میں فرقے فرقے بن گئے جو ایک دوسرے کو کافر و ملعون کہتے ہیں اور اپنے عبادت خانوں میں بھی نہیں آنے دیتے "ملکیہ فرقہ یعقوبیہ فرقے کو ، یعقوبیہ ملکیہ کو کھلے بندوں کافر کہتے ہیں ، اسی طرح دوسرے تمام فرقے بھی ، انہیں ان کے اعمال کی پوری تنبیہہ عنقریب ہوگی۔ انہوں نے بھی اللہ کی نصیحتوں کو بھلا دیا ہے اور اللہ پر تہمتیں لگائی ہیں اس پر بیوی اور اولاد والا ہونے کا بہتان باندھا ہے ، یہ قیامت کے دن بری طرح پکڑے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ واحد واحد فرد و صمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد ہے۔