Qari: |
O you who have believed, what is [the matter] with you that, when you are told to go forth in the cause of Allah, you adhere heavily to the earth? Are you satisfied with the life of this world rather than the Hereafter? But what is the enjoyment of worldly life compared to the Hereafter except a [very] little.
مومنو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب سے) زمین پر گرے جاتے ہو (یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے) کیا تم آخرت (کی نعمتوں) کو چھوڑ کر دینا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔ دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں
[يٰٓاَيُّھَا: اے] [الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا: جو لوگ ایمان لائے (مومن)] [مَا لَكُمْ: تمہیں کیا ہوا] [اِذَا: جب] [قِيْلَ: کہا جاتا ہے] [لَكُمُ: تمہیں] [انْفِرُوْا: کوچ کرو] [فِيْ: میں] [سَبِيْلِ اللّٰهِ: اللہ کی راہ] [اثَّاقَلْتُمْ: تم گرے جاتے ہو] [اِلَى: طرف (پر)] [الْاَرْضِ: زمین] [اَرَضِيْتُمْ: کیا تم نے پسند کرلیا] [بِالْحَيٰوةِ: زندگی کو] [الدُّنْيَا: دنیا] [مِنَ: سے (مقابلہ)] [الْاٰخِرَةِ: آخرت] [فَمَا: سو نہیں] [مَتَاعُ: سامان] [الْحَيٰوةِ: زندگی] [الدُّنْيَا: دنیا] [فِي: میں] [الْاٰخِرَةِ: آخرت] [اِلَّا: مگر] [قَلِيْلٌ: تھوڑا]
غزوہ تبوک اور جہاد سے گریزاں لوگوں کو انتباہ
ایک طرف تو گرمی سخت پڑ رہی تھی دوسری طرف پھل پک گئے تھے اور درختوں کے سائے بڑھ گئے تھے۔ ایسے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک دور دراز کے سفر کے لئے تیار ہوگئے غزوہ تبوک میں اپنے ساتھ چلنے کے لئے سب سے فرما دیا کچھ لوگ جو رہ گئے تھے انہیں جو تنبیہ کی گئی ان آیتوں کا شروع اس آیت سے ہے کہ جب تمہیں اللہ کی راہ کے جہاد کی طرف بلایا جاتا ہے تو تم کیوں زمین میں دھنسنے لگتے ہو ۔ کیا دنیا کی ان فانی چیزوں کی ہوس میں آخرت کی باقی نعمتوں کو بھلا بیٹھے ہو؟ سنو دنیا کی تو آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی کلمے کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اس انگلی کو کوئی سمندر میں ڈبو کر نکالے اس پر جتنا پانی سمندر کے مقابلے میں ہے اتنا ہی مقابلہ دنیا کا آخرت سے ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے کسی نے پوچھا کہ میں نے سنا ہے آپ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے بدلے ایک لاکھ کا ثبوات دیتا ہے آپ نے فرمایا بلکہ میں نے دو لاکھ کا فرمان بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سنا ہے پھر آپ نے اس آیت کے اسی جملے کی تلاوت کر کے فرمایا کہ دنیا جو گذر گئی اور جو باقی ہے وہ سب آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ مروی ہے کہ عبدالعزیز بن مروان نے اپنے انتقال کے وقت اپنا کفن منگوایا اسے دیکھ کر فرمایا بس میرا تو دنیا سے یہی حصہ تھا میں اتنی دنیا لے کر جا رہا ہوں پھر پیٹھ موڑ کر رو کر کہنے لگے ہائے دنیا تیرا زیادہ بھی کم ہے اور تیرا کم تو بہت ہی چھوٹا ہے افسوس ہم تو دھوکے میں ہی رہے۔ پھر ترک جہاد پر اللہ تعالیٰ ڈانٹتا ہے کہ سخت درد ناک عذاب ہوں گے۔ ایک قبیلے کو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جہاد کے لئے بلوایا وہ نہ اٹھے اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش روک لی۔ پھر فرماتا ہے کہ اپنے دل میں اترانا مت کہ ہم رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مددگار ہیں اگر تم درست نہ رہے تو اللہ تمہیں برباد کر کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ کا دوسرے لوگوں کو مددگار کر دے گا۔ جو تم جیسے نہ ہوں گے۔ تم اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ نہیں کہ تم نہ جاؤ تو مجاہدین جہاد کر ہی نہ سکیں ۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے وہ تمہارے بغیر بھی اپنے دشمنوں پر اپنے غلاموں کو غالب کر سکتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ ( اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 41) 9- التوبہ:41) اور ( مَا كَانَ لِاَھْلِ الْمَدِيْنَةِ وَمَنْ حَوْلَھُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ يَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَلَا يَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖ ۭذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ لَا يُصِيْبُھُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ وَّلَا مَخْمَصَةٌ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا يَـطَــــــُٔوْنَ مَوْطِئًا يَّغِيْظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ بِهٖ عَمَلٌ صَالِحٌ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ ١٢٠ۙ) 9- التوبہ:120) یہ سب آیتیں ( وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّةً ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ ١٢٢ۧ) 9- التوبہ:122) سے منسوخ ہیں لیکن امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اس کی تردید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ منسوخ نہیں بلکہ ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) جہاد کے لئے نکلنے کو فرمائیں وہ فرمان سنتے ہی اٹھ کھڑے ہو جائیں فی الواقع یہ توجیہ بہت عمدہ ہے واللہ اعلم۔