اَجَعَلۡتُمۡ سِقَایَۃَ الۡحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ کَمَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ جٰہَدَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ لَا یَسۡتَوٗنَ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۘ۱۹﴾

(19 - التوبۃ)

Qari:


Have you made the providing of water for the pilgrim and the maintenance of al-Masjid al-Haram equal to [the deeds of] one who believes in Allah and the Last Day and strives in the cause of Allah? They are not equal in the sight of Allah. And Allah does not guide the wrongdoing people.

کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد محترم یعنی (خانہٴ کعبہ) کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال کیا ہے جو خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ یہ لوگ خدا کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا

[اَجَعَلْتُمْ: کیا تم نے بنایا (ٹھہرایا)] [سِقَايَةَ: پانی پلانا] [الْحَاۗجِّ: حاجی (جمع)] [وَعِمَارَةَ: اور آباد کرنا] [الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ: مسجد حرام] [كَمَنْ: اس کے مانند] [اٰمَنَ: ایمان لایا] [بِاللّٰهِ: اللہ پر] [وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ: اور یوم آخرت] [وَجٰهَدَ: اور اس نے جہاد کیا] [فِيْ: میں] [سَبِيْلِ اللّٰه: اللہ کی راہ] [لَا يَسْتَوٗنَ: وہ برابر نہیں] [عِنْدَ اللّٰهِ: اللہ کے نزدیک] [وَاللّٰهُ: اور اللہ] [لَا يَهْدِي: ہدایت نہیں دیتا] [الْقَوْمَ: لوگ] [الظّٰلِمِيْنَ: ظالم (جمع)]

Tafseer / Commentary

سب سے بری عبادت اللہ کی راہ میں جہاد ہے
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کافروں کا قول تھا کہ بیت اللہ کی خدمت اور حاجیوں کے پانی پلانے کی سعادت ایمان وجہاد سے بہتر ہے ہم چونکہ یہ دونوں خدمتیں انجام دے رہے ہیں اس لیے ہم سے بہتر کوئی نہیں ۔ اللہ نے ان کے فخر و غرور اور حق سے تکبر اور منہ پھیرنے کو بےنقاب کیا کہ میری آیتوں کی تمہارے سامنے تلاوت ہوتے ہوئے تم ان سے بےپرواہی سے منہ موڑ کر اپنی بات چیت میں مشغول رہتے ہو ۔ پس تمہارا گمان بیجا تمہارا غرور غلط، تمہارا فخر نامناسب ہے یوں بھی اللہ کے ساتھ ایمان اور اس کی راہ میں جہاد بہت بڑی چیز ہے لیکن تمہارے مقابلے میں تو وہ اور بھی بڑی چیز ہے کیونکہ تمہاری تو کوئی نیکی ہو بھی تو اسے شرک کا کیڑا کھا جاتا ہے۔ پس فرماتا ہے کہ یہ دونوں گروہ برابر کے بھی نہیں یہ اپنے تئیں آبادی کرنے والا کہتے تھے اللہ نے ان کا نام ظالم رکھا ان کی اللہ کے گھر کی خدمت بیکار کر دی گئی۔ کہتے ہیں کہ حضرت عباس نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ تم اگر اسلام و جہاد میں تھے تو ہم بھی اللہ کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی بیکار ہے۔ صحابہ نے جب ان سے پر لے دے شروع کی تو حضرت عباس نے کہا تھا کہ ہم مسجد حرام کے متولی تھے، ہم غلاموں کو آزاد کرتے تھے، ہم بیت اللہ کو غلاف چڑھاتے تھے، ہم حاجیوں کو پانی پلاتے تھے، اس پر یہ آیت اتری، مروی ہے کہ یہ گفتگو حضرت عباس (رض) اور حضرت علی (رض) میں ہوئی تھی۔ مروی ہے کہ طلحہ بن شیبہ، عباس بن عبد المطلب ، علی بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان کرنے لگے، عثمان (رض) نے کہا میں بیت اللہ کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں ۔ عباس (رض) نے کہا میں زمزم کا پانی پلانے والا ہوں اور اس کا نگہبان ہوں اگر چاہوں تو مسجد ساری رات رہ سکتا ہوں ۔ علی (رض) نے کہا میں نہیں جانتا کہ تم دونوں صاحب کیا کہہ رہے ہو ؟ میں لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے میں مجاہد ہوں اور اس پر یہ آیت پوری اتری ۔ عباس (رض) نے اپنا ڈر ظاہر کیا کہ کہیں میں چاہ زمزم کے پانی پلانے کے عہدے سے نہ ہٹا دیا جاؤں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا نہیں تم اپنے اس منصب پر قائم رہو تمہارے لیے اس میں بھلائی ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا اسلام کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاؤں دوسرے نے اسی طرح مسجد حرام کی آبادی کو کہا تیسرے نے اسی طرح راہ رب کے جہاد کو کہا حضرت عمر (رض) نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا منبر رسول اللہ کے پاس آوازیں بلند نہ کرو یہ واقعہ جمعہ کے دن کا ہے جمعہ کے بعد ہم سب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر (رض) نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں آپ جا کر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہ بات دریافت کرلوں گا۔

Select your favorite tafseer