تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۳﴾

(13 - النسآء)

Qari:


These are the limits [set by] Allah, and whoever obeys Allah and His Messenger will be admitted by Him to gardens [in Paradise] under which rivers flow, abiding eternally therein; and that is the great attainment.

(یہ تمام احکام) خدا کی حدیں ہیں۔ اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر کی فرمانبرداری کرے گا خدا اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔اور یہ بڑی کامیابی ہے

[تِلْكَ: یہ] [حُدُوْدُ: حدیں] [اللّٰهِ: اللہ] [وَمَنْ: اور جو] [يُّطِعِ اللّٰهَ: اللہ کی اطاعت کرے] [وَرَسُوْلَهٗ: اور اس کا رسول] [يُدْخِلْهُ: وہ اسے داخل کرے گا] [جَنّٰتٍ: باغات] [تَجْرِيْ: بہتی ہیں] [مِنْ تَحْتِھَا: ان کے نیچے] [الْاَنْھٰرُ: نہریں] [خٰلِدِيْنَ: ہمیشہ رہیں گے] [فِيْھَا: ان میں] [وَ: اور] [ذٰلِكَ: یہ] [الْفَوْزُ: کامیابی] [الْعَظِيْمُ: بڑی]

Tafseer / Commentary

نافرمانوں کا حشر
اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے آگے نکل جائے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں ہمیشہ رہے گا ایسوں کے لئے اہانت کرنے والا عذاب ہے، یعنی یہ فرائض اور یہ مقدار جسے اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اور میت کے وارثوں کو ان کی قرابت کی نزدیگی اور ان کی حاجت کے مطابق جتنا جسے دلوایا ہے یہ سب اللہ ذوالکرم کی حدود ہیں تم ان حدوں کو نہ توڑو نہ اس سے آگے بڑھو۔ جو شخص اللہ عزوجل کے ان احکام کو مان لے، کوئی حیلہ حوالہ کر کے کسی وارث کو کم بیش دلوانے کی کوشش نہ کرے حکم الہ اور فریضہ الہ جوں کا توں بجا لائے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اسے ہمیشہ لینے والی نہروں کی جنت میں داخل کرے گا، یہ کامیاب نصیب ور اور مقصد کو پہنچنے والا اور مراد کو پانے والا ہو گا، اور جو اللہ کے کسی حکم کو بدل دے کسی وارث کے ورثے کو کم و بیش کر دے رضائے الٰہی کو پیش نظر نہ رکھے بلکہ اس کے حکم کو رد کر دے اور اس کے خلاف عمل کرے وہ اللہ کی تقسیم کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا اور اس کے حکم کو عدل نہیں سمجھتا تو ایسا شخص ہمیشہ رہنے والی رسوائی اور اہانت والے درد ناک اور ہیبت ناک عذابوں میں مبتلا رہے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک شخص ستر سال تک نیکی کے عمل کرتا رہتا ہے پھر وصیت کے وقت ظلم و ستم کرتا ہے اس کا خاتمہ برے عمل پر ہوتا ہے اور وہ جہنمی بن جاتا ہے اور ایک شخص برائی کا عمل ستر سال تک کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں عدل کرتا ہے اور خاتمہ اس کا بہتر ہو جاتا ہے تو جنت میں داخل جاتا ہے، پھر اس حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس آیت کو پڑھو آیت (تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ يُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ 13؀ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا ۠ وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ 14؀ۧ ) 4۔ النسآء:13-14) سے عذاب (مہین) تک۔ سنن ابی داؤد کے باب الاضرار فی الوصیتہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک مرد یا عورت اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ساٹھ سال تک لگے رہے ہیں پھر موت کے وقت وصیت میں کوئی کمی بیشی کر جاتے ہیں تو ان کے لئے جہنم واجب ہو جاتی ہے پھر حضرت ابو ہریرہ نے آیت (من بعد وصیتہ) سے آخر آیت تک پڑھی ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے، امام ترمذی اسے غریب کہتے ہیں، مسند احمد میں یہ حدیث تمام و کمال کے ساتھ موجود ہے۔

Select your favorite tafseer