Qari: |
Do they await but that Allah should come to them in covers of clouds and the angels [as well] and the matter is [then] decided? And to Allah [all] matters are returned.
کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا (کاعذاب) بادل کے سائبانوں میں آنازل ہو اور فرشتے بھی (اتر آئیں) اور کام تمام کردیا جائے اور سب کاموں کا رجوع خدا ہی کی طرف ہے
[ھَلْ: کیا] [ يَنْظُرُوْنَ: وہ انتظار کرتے ہیں] [اِلَّآ: سوائے (یہی)] [اَنْ: کہ] [يَّاْتِيَهُمُ: آئے ان کے پاس] [اللّٰهُ: اللہ] [فِيْ ظُلَلٍ: سائبانوں میں] [مِّنَ: سے] [الْغَمَامِ: بادل] [وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ: اور فرشتے] [وَقُضِيَ: اور طے ہوجائے] [الْاَمْرُ: قصہ] [وَاِلَى: اور طرف] [اللّٰهِ: اللہ] [تُرْجَعُ: لوٹیں گے] [الْاُمُوْرُ: تمام کام]
تذکرہ شفاعت
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کفار کو دھمکا رہا ہے کہ کیا انہیں قیامت ہی کا انتظار ہے جس دن حق کے ساتھ فیصلے ہو جائیں گے اور ہر شخص اپنے کئے کو بھگت لے گا، جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت (كَلَّآ اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكًّا) 89۔ الفجر:21) یعنی جب زمین کے ریزے ریزے اور تیرا رب خود آجائے گا اور فرشتوں کی صفیں کی صفیں بندھ جائیں گی اور جہنم بھی لا کر کھڑی کر دی جائے گی اس دن یہ لوگ عبرت ونصیحت حاصل کریں گے لیکن اس سے کیا فائدہ ؟ اور جگہ فرمایا آیت (هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ) 6۔ الانعام:158) یعنی کیا انہیں اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود اللہ تعالیٰ آئے یا اس کی بعض نشانیان آ جائیں اگر یہ ہو گیا تو پھر انہیں نہ ایمان نفع دے نہ نیک اعمال کا وقت رہے، امام ابن جریر رحمہ اللہ نے یہاں پر ایک لمبی حدیث لکھی ہے جس میں صور وغیرہ کا مفصل بیان ہے جس کے راوی حضرت ابو ہریرہ مسند وغیرہ میں یہ حدیث ہے اس میں ہے کہ جب لوگ گھبرا جائیں گے تو انبیاء علیہم السلام سے شفاعت طلب کریں گے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ایک ایک پیغمبر کے پاس جائیں گے اور وہاں سے صاف جواب پائیں گے یہاں تک کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر ایک ایک پیغمبر کے پاس جائیں گے اور وہاں سے صاف جواب پائیں گے یہاں تک کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچیں گے آپ جواب دیں گے میں تیار ہوں میں ہی اس کا اہل ہوں، پھر آپ جائیں گے اور عرش تلے سجدے میں گر پڑیں گے اور اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں گے کہ وہ بندوں کا فیصلہ کرنے کے لئے تشریف لائے اللہ تعالیٰ آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا اور بادلوں کے سائبان میں آئے گا دنیا کا آسمان ٹوٹ جائے گا اور اس کے تمام فرشتے آجائیں گے پھر دوسرا بھی پھٹ جائے گا اور اس کے فرشتے بھی آجائیں گے اسی طرح ساتوں آسمان شق ہو جائیں گے اور ان کے فرشتے بھی آجائیں گے، پھر اللہ کا عرش اترے گا اور بزرگ تر فرشتے نازل ہوں گے اور خود وہ جبار اللہ جل شانہ تشریف لائے گا فرشتے سب کے سب تسبیح خوانی میں مشغول ہوں گے ان کی تسبیح اس وقت یہ ہو گی۔ دعا (سبحان ذی الملک والملکوت، سبحان ذی العزۃ والجبروت سبحان الحی الذی لا یموت، سبحان الذی یمیت الخلائق ولا یموت، سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح، سبوح قدوس، سبحان ربنا الاعلیٰ سبحان ذی السلطان والعطمۃ ، سبحانہ سبحانہ ابدا ابدا)، ۔ حافظ ابو بکر بن مردویہ بھی اس آیت کی تفسیر میں بہت سی احادیث لائے ہیں جن میں غراب ہے واللہ اعلم، ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو اس دن جمع کرے گا جس کا وقت مقرر ہے وہ سب کے سب کھڑے ہوں گے آنکھیں پتھرائی ہوئی اور اوپر کو لگی ہوئی ہوں گی ہر ایک کو فیصلہ کا انتظار ہوگا اللہ تعالیٰ ابر کے سائبان میں عرش سے کرسی پر نزول فرمائے گا، ابن ابی حاتم میں ہے عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ جس وقت وہ اترے گا تو مخلوق اور اس کے درمیان ستر ہزار پردے ہوں گے نور کی چکا چوند کے اور پانی کے اور پانی سے وہ آوازیں آرہی ہوں گی جس سے دل ہل جائیں، زبیر بن محمد فرماتے ہیں کہ وہ بادل کا سائبان یاقوت کا جڑا ہوا اور جوہر وزبرجد والا ہوگا، حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ بادل معمولی بادل نہیں بلکہ یہ وہ بادل ہے جو بنی اسرائیل کے سروں پر وادی تیہ میں تھا، ابو العالیہ فرماتے ہیں فرشتے بھی بادل کے سائے میں آئیں گے اور اللہ تعالیٰ جس میں چاہے آئے گا، چنانچہ بعض قرأتوں میں یوں بھی ہے آیت (ھَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ) 2۔ البقرۃ:210) جیسے اور جگہ ہے آیت (وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاۗءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ تَنْزِيْلًا) 25۔ الفرقان:25)۔ یعنی اس دن آسمان بادل سمیت پھٹے گا اور فرشتے اتر آئیں گے۔