وَ لُوۡطًا اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِہٖۤ اَتَاۡتُوۡنَ الۡفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمۡ بِہَا مِنۡ اَحَدٍ مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۸۰﴾

(80 - الاعراف)

Qari:


And [We had sent] Lot when he said to his people, "Do you commit such immorality as no one has preceded you with from among the worlds?

اور اسی طرح جب ہم نے لوط کو (پیغمبر بنا کر بھیجا تو) اس وقت انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسی بےحیائی کا کام کیوں کرتے ہو کہ تم سے اہل عالم میں سے کسی نے اس طرح کا کام نہیں کیا

[وَلُوْطًا: اور لوط] [اِذْ: جب] [قَالَ: کہا] [لِقَوْمِهٖٓ: اپنی قوم سے] [اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ: کیا آتے ہو بیحیائی کے پاس (بیحیائی کرتے ہو)] [مَا سَبَقَكُمْ: جو تم سے پہلے نہیں کی] [بِهَا: ایسی] [مِنْ اَحَدٍ: کسی نے] [مِّنَ: سے] [الْعٰلَمِيْنَ: سارے جہان]

Tafseer / Commentary

لوط علیہ السلام کی بد نصیب قوم
فرمان ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کو بھی ہم نے ان کی قوم کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا تو ان کے واقعہ کو بھی یاد کر ، حضرت لوط علیہ السلام ہاران بن آزر کے بیٹے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے آپ ہی کے ہاتھ پر ایمان قبول کیا تھا اور آپ ہی کے ساتھ شام کی طرف ہجرت کی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا نبی بنا کر سدوم نامی بستی کی طرف بھیجا آپ نے انہیں اور آس پاس کے لوگوں کو اللہ کی توحید اور اپنی اطاعت کی طرف بلایا نیکیوں کے کرنے برائیوں کو چھوڑنے کا حکم دیا ۔ جن میں ایک برائی اغلام بازی تھی جو ان سے پہلے دنیا سے مفقود تھی ۔ اس بدکاری کے موجد یہی ملعون لوگ تھے ۔ عمرو بن دینار یہی فرماتے ہیں ۔ جامع دمشق کے بانی خلیفہ ولید بن عبدالملک کہتے ہیں اگر یہ خبر قرآن میں نہ ہوتی تو میں تو اس بات کو کبھی نہ مانتا کہ مرد مرد سے حاجت روائی کرلے اسی لئے حضرت لوط علیہ السلام نے ان حرام کاروں سے فرمایا کہ تم سے پہلے تو یہ ناپاک اور خبیث فعل کسی نے نہیں کیا ۔ عورتوں کو جو اس کام کیلئے تھیں چھوڑ کر تم مردوں پر ریجھ رہے ہو؟ اس سے بڑھ کر اسراف اور جہالت اور کیا ہوگی ؟ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ آپ نے فرمایا یہ ہیں میری بچیاں یعنی تمہاری قوم کی عورتیں ۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں ان کی چاہت نہیں ۔ ہم تو تمہارے ان مہمان لڑکوں کے خواہاں ہیں مفسرین فرماتے ہیں جس طرح مرد مردوں میں مشغول تھے عورتیں عورتوں میں پھنسی ہوئی تھیں ۔

Select your favorite tafseer