وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ ۙ﴿۱﴾

(1 - الطَّارق)

Qari:


By the sky and the night comer -

آسمان اور رات کے وقت آنے والے کی قسم

[وَالسَّمَاۗءِ : قسم آسمان کی] [وَالطَّارِقِ : اور رات کو آنے والے کی]

Tafseer / Commentary

مسند احمد میں ہے کہ خالد بن ابو حبل عدوانی نے ثقیف قبیلے کی مشرق کی طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو لکڑی پر یا کمان پر ٹیک لگائے ہوئے اس پوری سورت کو پڑھتے سنا جبکہ آپ ان لوگوں سے مدد طلب کرنے کے لیے یہاں آئے تھے حضرت خالد نے اسے یاد کر لیا جب یہ ثقیف کے پاس واپس آئے تو ثقیف نے ان سے پوچھا یہ کیا کہہ رہے ہیں یہ بھی اس وقت مشرک تھے انہوں نے بیان کیا تو جتنے قریش وہاں تھے جلدی سے بول پڑے کہ اگر یہ حق ہوتا تو کیا اب تک ہم نہ مان لیتے، نسائی میں حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت معاذ (رض) نے مغرب کی نماز میں سورۃ بقرہ یا سورۃ نساء پڑھی تو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اے معاذ کیا تو فتنے میں ڈالنے والا ہے؟ کیا تجھے یہ کافی نہ تھا کہ آیت ( وَالسَّمَاۗءِ وَالطَّارِقِ ۝ ۙ) 86- الطارق:1) اور ( وَالشَّمْسِ وَضُحٰىهَا ۝۽) 91- الشمس:1) اور ایسی ہی اور سورتیں پڑھ لیتا۔

تخلیق انسان
اللہ تعالیٰ آسمانوں کی اور ان کے روشن ستاروں کی قسم کھتا ہے طارق کی تفسیر چمکتے ستارے سے کی ہے وجہ یہ ہے کہ دن کو چھپے رہتے ہیں اور رات کو ظاہر ہو جاتے ہیں ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے منع فرمایا کہ کوئی اپنے گھر رات کے وقت بےخبر آ جائے یہاں بھی لفظ طروق ہے، آپ کی ایک دعا میں بھی طارق کا لفظ آیا ہے ثاقب کہتے ہیں چمکیلے اور روشنی والے کو جو شیطان پر گرتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے ہر شخص پر اللہ کی طرف سے ایک محافظ مقرر ہے جو اسے آفات سے بچاتا ہے جیسے اور جگہ ہے کہ آیت ( لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَاد اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ 11۝) 13- الرعد:11) یعنی آگے پیچھے سے باری باری آنے والے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے بندے کی حفاظت کرتے ہیں انسان کی ضعیفی کا بیان ہو رہا ہے کہ دیکھو تو اس کی اصل کیا ہے اور گویا اس میں نہایت باریکی کے ساتھ قیامت کا یقین دلایا گیا ہے کہ جو ابتدائی پیدائش پر قادر ہے وہ لوٹانے پر قادر کیوں نہ ہوگا جیسے فرمایا آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ 27؀ۧ) 30- الروم:27) یعنی جس نے پہلے پیدا کیا وہ ہی دوبارہ لوٹائے گا اور یہ اس پر بہت ہی آسان ہے انسان اچھلنے والے پانی یعنی عورت مرد کی منی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پیٹھ سے اور عورت کی چھاتی سے نکلتی ہے عورت کا یہ پانی زرد رنگ کا اور پتلا ہوتا ہے اور دونوں سے بچہ کی پیدائش ہوتی ہے تریبہ کہتے ہیں ہار کی جگہ کو کندھوں سے لے کر سینے تک کو بھی کہا گیا ہے اور نرخرے سے نیچے کو بھی کہا گیا ہے اور چھاتیوں سے اوپر کے حصہ کو بھی کہا گیا ہے اور نیچے کی طرف چار پسلیوں کو بھی کہا گیا ہے اور دونوں چھاتیوں اور دونوں پیروں اور دونوں آنکھوں کے درمیان کو بھی کہا گیا ہے دل کے نچوڑ کو بھی کہا گیا ہے سینہ اور پیٹھ کے درمیان کو بھی کہا جاتا ہے وہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے یعنی نکلے ہوئے پانی کو اس کی جگہ واپس پہنچا دینے پر اور یہ مطلب کہ اسے دوبارہ پیدا کر کے آخرت کی طرف لوٹانے پر بھی پچھلا قول ہی اچھا ہے اور یہ دلیل کئی مرتبہ بیان ہو چکی ہے پھر فرمایا کہ قیامت کے دن پوشیدگیاں کھل جائیں گی راز ظاہر ہو جائیں گے بھید آشکار ہو جائیں گے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں ہر غدار کی رانوں کے درمیان اس کے غدار کا جھنڈا گاڑ دیا جائے گا اور اعلان ہو جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے اس دن نہ تو خود انسان کو کوئی قوت حاصل ہوگی نہ اس کا مددگار کوئی اور کھڑا ہوگا یعنی نہ تو خود اپنے آپ کو عذابوں سے بچا سکے گا نہ کوئی اور ہوگا جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔

Select your favorite tafseer