وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اللّٰہَ قَدۡ بَعَثَ لَکُمۡ طَالُوۡتَ مَلِکًا ؕ قَالُوۡۤا اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہُ الۡمُلۡکُ عَلَیۡنَا وَ نَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡکِ مِنۡہُ وَ لَمۡ یُؤۡتَ سَعَۃً مِّنَ الۡمَالِ ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰىہُ عَلَیۡکُمۡ وَ زَادَہٗ بَسۡطَۃً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ ؕ وَ اللّٰہُ یُؤۡتِیۡ مُلۡکَہٗ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۴۷﴾

(247 - البقرۃ)

Qari:


And their prophet said to them, "Indeed, Allah has sent to you Saul as a king." They said, "How can he have kingship over us while we are more worthy of kingship than him and he has not been given any measure of wealth?" He said, "Indeed, Allah has chosen him over you and has increased him abundantly in knowledge and stature. And Allah gives His sovereignty to whom He wills. And Allah is all-Encompassing [in favor] and Knowing."

اور پیغمبر نے ان سے (یہ بھی) کہا کہ خدا نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔ وہ بولے کہ اسے ہم پر بادشاہی کا حق کیونکر ہوسکتا ہےبادشاہی کے مستحق تو ہم ہیں اور اس کے پاس تو بہت سی دولت بھی نہیں۔ پیغمبر نے کہا کہ خدا نےاس کو تم پر فضیلت دی ہے اور (بادشاہی کے لئے) منتخب فرمایا ہے اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور تن و توش بھی (بڑا عطا کیا ہے) اور خدا (کو اختیار ہے) جسے چاہے بادشاہی بخشے۔ وہ بڑا کشائش والا اور دانا ہے

[وَقَالَ: اور کہا] [لَهُمْ: انہیں] [نَبِيُّهُمْ: ان کا نبی] [اِنَّ: بیشک] [اللّٰهَ: اللہ] [قَدْ بَعَثَ: مقرر کردیا ہے] [لَكُمْ: تمہارے لیے] [طَالُوْتَ: طالوت] [مَلِكًا: بادشاہ] [قَالُوْٓا: وہ بولے] [اَنّٰى: کیسے] [يَكُوْنُ: ہوسکتی ہے] [لَهُ: اس کے لیے] [الْمُلْكُ: بادشاہت] [عَلَيْنَا: ہم پر] [وَنَحْنُ: اور ہم] [اَحَقُّ: زیادہ حقدار] [بِالْمُلْكِ: بادشاہت کے] [مِنْهُ: اس سے] [وَلَمْ يُؤْتَ: اور نہیں دی گئی] [سَعَةً: وسعت] [مِّنَ: سے] [الْمَالِ: مال] [قَالَ: اس نے کہا] [اِنَّ: بیشک] [اللّٰهَ: بیشک] [اصْطَفٰىهُ: اسے چن لیا] [عَلَيْكُمْ: تم پر] [وَزَادَهٗ: اور اسے زیادہ دی] [بَسْطَةً: وسعت] [فِي: میں] [الْعِلْمِ: علم] [وَالْجِسْمِ: اور جسم] [وَاللّٰهُ: اور اللہ] [يُؤْتِيْ: دیتا ہے] [مُلْكَهٗ: اپنا بادشاہ] [مَنْ: جسے] [يَّشَاۗءُ: چاہتا ہے] [وَاللّٰهُ: اور اللہ] [وَاسِعٌ: وسعت والا] [عَلِيْمٌ: جاننے والا]

Tafseer / Commentary

خوئے بدرا بہانہ بسیار
مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے کسی کو اپنا بادشاہ بنا دینے کی خواہش اپنے پیغمبر سے کی تو پیغمبر نے بحکم الہ حضرت طالوت کو پیش کیا جو شاہی خاندان سے نہ تھے، ایک لشکری تھے، شاہی خاندان یہود کی اولاد تھی اور یہ ان میں سے نہ تھے تو قوم نے اعتراض کیا کہ حقدار بادشاہت کے تو اس سے بہت زیادہ ہم ہیں پھر دوسری بات یہ کہ اس کے پاس مال بھی نہیں، مفلس شخص ہے، بعض کہتے ہیں یہ سقے تھے کسی نے کہا یہ دباغ تھے، پس پہلی سرکشی تو اعتراض کی صورت میں احکام نبوی کے سامنے ان سے یہ ہوئی، پیغمبر نے انہیں جواب دیا کہ یہ تعین میری رائے سے نہیں جس میں میں دوبارہ غور کر سکوں، یہ تو اللہ جل شانہ کا حکم ہے جس کی بجا آوری ضروری ہے، پھر ظاہراً بھی وہ تم میں بڑے عالم ہیں اور قومی اور طاقتور شکیل و جمیل شجاع و بہادر اور لڑائی کے فنون سے پورے واقف کار ہیں۔ یہاں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بادشاہ ذی علم شکیل قوی طاقتور بڑے دِل و دماغ والا ہونا چاہئے۔ پھر فرمایا کہ اصلی اور حقیقی حاکم اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ملک کا مالک فی الواقع وہی ہے جسے چاہے ملک دے وہ علم و حکمت والا رافت و رحمت والا ہے۔ اس سے کس کی مجال کہ سوال کرے؟ جو چاہے کرے سب سے سوال کرنے والا کوئی نہ کوئی ہے لیکن پروردگار اس سے مستثنیٰ ہے، وہ وسیع فضل والا اپنی نعمتوں سے جسے چاہے مخصوص کرے، وہ علم والا خوب جانتا ہے کون کس چیز کا مستحق ہے اور کسے کس چیز کا استحقاق نہیں۔

Select your favorite tafseer