Qari: |
They ask you, [O Muhammad], about the new moons. Say, "They are measurements of time for the people and for Hajj." And it is not righteousness to enter houses from the back, but righteousness is [in] one who fears Allah. And enter houses from their doors. And fear Allah that you may succeed.
(اے محمدﷺ) لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے) کہہ دو کہ وہ لوگوں کے (کاموں کی میعادیں) اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے اور نیکی اس بات میں نہیں کہ (احرام کی حالت میں) گھروں میں ان کے پچھواڑے کی طرف سے آؤ۔ بلکہ نیکوکار وہ ہے جو پرہیز گار ہو اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ نجات پاؤ
[يَسْــَٔـلُوْنَكَ: وہ آپ سے پوچھتے ہیں] [عَنِ: سے] [الْاَهِلَّةِ: نئے چاند] [قُلْ: آپ کہدیں] [ھِىَ: یہ] [مَوَاقِيْتُ:(پیمانہ) اوقات] [لِلنَّاسِ: لوگوں کے لیے] [وَالْحَجِّ: اور حج] [وَلَيْسَ: اور نہیں] [الْبِرُّ: نیکی] [بِاَنْ: یہ کہ] [تَاْتُوا: تم آؤ] [الْبُيُوْتَ: گھر (جمع)] [مِنْ: سے] [ظُهُوْرِھَا: ان کی پشت] [وَلٰكِنَّ: اور لیکن] [الْبِرَّ: نیکی] [مَنِ: جو] [اتَّقٰى: پرہیزگاری کرے] [وَاْتُوا: اور تم آؤ] [الْبُيُوْتَ: گھر (جمع)] [مِنْ: سے] [اَبْوَابِهَا: اور تم ڈرو] [وَاتَّقُوا: اور تم ڈرو] [اللّٰهَ: اللہ] [لَعَلَّكُمْ: تاکہ تم] [تُفْلِحُوْنَ: کامیابی حاصل کرو]
چاند اور مہ وسال
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لوگوں نے چاند کے بارے میں سوال کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اس سے قرض وغیرہ کے وعدوں کی میعاد معلوم ہو جاتی ہے، عورتوں کی عدت کا وقت معلوم ہوتا ہے، حج کا وقت معلوم ہوتا ہے، مسلمانوں کے روزے کے افطار کا تعلق بھی اسی سے ہے، مسند عبدالرزاق میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے چاند کو لوگوں کے وقت معلوم کرنے کے لئے بنایا ہے اسے دیکھ کر روزے رکھو اسے دیکھ کر عید مناؤ اگر ابر وباراں کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو تیس دن پورے گن لیا کرو، اس روایت کو حضرت امام حاکم نے صحیح کہا ہے یہ حدیث اور سندوں سے بھی مروی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک موقوف روایت میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے ۔ آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ بھلائی گھروں کے پیچھے سے آنے میں نہیں بلکہ بھلائی تقویٰ میں ہے گھروں میں دروازوں سے آؤ ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جاہلیت کے زمانہ یہ دستور تھا کہ احرام میں ہوتے تو گھروں میں پشت کی جانب سے آتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابو داؤد طیالسی میں بھی یہ روایت ہے انصار کا عام دستور تھا کہ سفر سے جب واپس آتے تو گھر کے دروازے میں نہیں گھستے تھے دراصل یہ بھی جاہلیت کے زمانہ میں قریشیوں نے اپنے لیے ایک اور امتیاز قائم کر لیا تھا کہ اپنا نام انہوں نے حمس رکھا تھا احرام کی حالت یہ تو براہ راست اپنے گھروں میں آسکتے تھے لیکن دوسرے لوگ سیدھے راستے گھروں میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک باغ سے اس کے دروازے سے نکلے تو آپ کے ایک انصاری صحابی حضرت قطبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ ہی اسی دروازے سے نکلے اس پر لوگوں نے حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو ایک تجارت پیشہ شخص ہیں یہ آپ کے ساتھ آپ کی طرح اس دروازے سے کیوں نکلے؟ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جواب دیا کہ میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس طرح کرتے دیکھا کیا۔ مانا کہ آپ حمس میں سے ہیں لیکن میں بھی تو آپ کے دین پر ہی ہوں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن ابی حاتم) حضرت ابن عباس وغیرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں بہت سی قوموں کا یہ رواج تھا کہ جب وہ سفر کے ارادے سے نکلتے پھر سفر ادھورا چھوڑ کر اگر کسی وجہ سے واپس چلے آتے تو گھر کے دروازے سے گھر میں نہ آتے بلکہ پیچھے کی طرف سے چڑھ کر آتے جس سے اس آیت میں روکا گیا، محمد بن کعب فرماتے ہیں اعتکاف کی حالت میں بھی یہی دستور تھا جسے اسلام نے ختم کیا، عطا فرماتے ہیں اہل مدینہ کا عیدوں میں بھی یہی دستور تھا جسے اسلام نے ختم کر دیا۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بجا لانا اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جانا اس کا ڈر دل میں رکھنا یہ چیزیں ہیں جو دراصل اس دن کام آنے والی ہیں جس دن ہر شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اور پوری پوری جزا سزا پائے گا۔