قُلۡ لَّاۤ اَمۡلِکُ لِنَفۡسِیۡ نَفۡعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ کُنۡتُ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ لَاسۡتَکۡثَرۡتُ مِنَ الۡخَیۡرِۚۖۛ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوۡٓءُ ۚۛ اِنۡ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۸۸﴾٪

(188 - الاعراف)

Qari:


Say, "I hold not for myself [the power of] benefit or harm, except what Allah has willed. And if I knew the unseen, I could have acquired much wealth, and no harm would have touched me. I am not except a warner and a bringer of good tidings to a people who believe."

کہہ دو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو الله چاہے اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کرلیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو مومنوں کو ڈر اور خوشخبری سنانے والا ہوں

[قُلْ: کہدیں] [لَّآ اَمْلِكُ: میں مالک نہیں] [لِنَفْسِيْ: اپنی ذات کے لیے] [نَفْعًا: نفع] [وَّ: اور] [لَا: نہ] [ضَرًّا: نقصان] [اِلَّا: مگر] [مَا: جو] [شَاۗءَ اللّٰهُ: چاہے اللہ] [وَلَوْ: اور اگر] [كُنْتُ: میں ہوتا] [اَعْلَمُ: جانتا] [الْغَيْبَ: غیب] [لَاسْتَكْثَرْتُ: میں البتہ جمع کرلیتا] [مِنَ: سے] [الْخَيْر: بہت بھلائی] [وَمَا مَسَّنِيَ: اور نہ پہنچتی مجھے] [السُّوْۗءُ: کوئی برائی] [اِنْ: بس۔ فقط] [اَنَا: میں] [اِلَّا: مگر (صرف)] [نَذِيْرٌ: ڈرانے والا] [وَّبَشِيْرٌ: اور خوشخبری سنانے والا] [لِّقَوْمٍ: لوگوں کے لیے] [يُّؤْمِنُوْنَ: ایمان رکھتے ہیں]

Tafseer / Commentary

نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو علم غیب نہیں تھا
اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو حکم فرماتا ہے کہ آپ تمام کام سپرد الہ کریں اور صاف کہہ دیں کہ غیب کی کسی بات کا مجھے علم نہیں ۔ میں تو صرف وہ جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ مجھے معلوم کرا دے ۔ جیسے سورۃ جن میں ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا ۔ مجھے اگر غیب کی اطلاع ہوتی تو میں اپنے لئے بہت سی بھلائیاں سمیٹ لیتا۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اگر مجھے اپنی موت کا علم ہوتا تو نیکیوں میں بھی سبقت لے جاتا ۔ لیکن یہ قول غور طلب ہے کیونکہ حضور کے اعمال دائمی تھے جو نیکی ایک بار کرتے پھر اسے معمول بنالیتے ۔ ساری زندگی اور زندگی کا ہر ایک دن بلکہ ہر ایک گھڑی ایک ہی طرح کی تھی ۔ گویا کہ آپ کی نگاہیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف لگتی رہتی تھیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات یوں ہو سکتی ہے کہ دوسروں کو میں ان کی موت کے وقت سے خبردار کر کے انہیں اعمال نیک کی رغبت دلاتا واللہ اعلم ۔ اس سے زیادہ اچھا قول اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباس کا ہے کہ میں مال جمع کر لیتا مجھے معلوم ہو جاتا کہ اس چیز کے خریدنے میں نفع ہے میں اسے خرید لیتا ۔ جانتا کہ اس کی خریداری میں نقصان ہے نہ خریدتا ۔ خشک سالی کے لئے ترسالی میں ذخیرہ جمع کر لیتا ۔ ارزانی کے وقت گرانیے علم سے سودا جمع کر لیتا ۔ کبھی کوئی برائی مجھے نہ پہنچتی کیونکہ میں علم غیب سے جان لیتا کہ یہ برائی ہے تو میں پہلے سے ہی اس سے جتن کر لیتا ۔ لیکن میں علم غیب نہیں جانتا اس لئے فقیری بھی مجھ پر آتی ہے تکلیف بھی ہوتی ہے ۔ مجھ میں تم یہ وصف نہ مانو ۔ سنو مجھ میں وصف یہ ہے کہ میں برے لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراتا ہوں ایمانداروں کو جنت کی خوش خبری سناتا ہوں جیسے فرمان ہے آیت ( فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا 97؀) 19- مريم:97) ہم نے اسے تیری زبان پر آسان کر دیا ہے کہ تو پرہیزگاروں کو خوشخبری سنا دے اور بروں کو ڈرا دے۔

Select your favorite tafseer