قَالَ فَاہۡبِطۡ مِنۡہَا فَمَا یَکُوۡنُ لَکَ اَنۡ تَتَکَبَّرَ فِیۡہَا فَاخۡرُجۡ اِنَّکَ مِنَ الصّٰغِرِیۡنَ ﴿۱۳﴾

(13 - الاعراف)

Qari:


[Allah] said, "Descend from Paradise, for it is not for you to be arrogant therein. So get out; indeed, you are of the debased.

فرمایا تو (بہشت سے) اتر جا تجھے شایاں نہیں کہ یہاں غرور کرے پس نکل جا۔ تو ذلیل ہے

[قَالَ: فرمایا] [فَاهْبِطْ: پس تو اتر جا] [مِنْهَا: اس سے] [فَمَا: تو نہیں] [يَكُوْنُ: ہے] [لَكَ: تیرے لیے] [اَنْ: کہ] [تَتَكَبَّرَ: تو تکبر کرے] [فِيْهَا: اس میں (یہاں)] [فَاخْرُجْ: پس نکل جا] [اِنَّكَ: بیشک تو] [مِنَ: سے] [الصّٰغِرِيْنَ: ذلیل (جمع)]

Tafseer / Commentary

نا فرمانی کی سزا
ابلیس کو اسی وقت حکم ملا کہ میری نافرمانی اور میری اطاعت سے رکنے کے باعث اب تو یہاں جنت میں نہیں رہ سکتا ، یہاں سے اتر جا کیونکہ یہ جگہ تکبر کرنے کی نہیں ۔ بعض نے کہا ہے (فیھا) کی ضمیر کا مرجع منزلت ہے یعنی جن ملکوت اعلی میں تو ہے اس مرتبے میں کوئی سرکش رہ نہیں سکتا ۔ جا یہاں سے چلا جا تو اپنی سرکشی کے بدلے ذلیل و خوار ہستیوں میں شامل کر دیا گیا ۔ تیری ضد اور ہٹ کی یہی سزا ہے ۔ اب لعین گھبرایا اور اللہ سے مہلت چاہنے لگا کہ مجھے قیامت تک کی ڈھیل دی جائے ۔ چونکہ جناب باری جل جلالہ کی اس میں مصلحتیں اور حکمتیں تھیں بھلے بروں کو دنیا میں ظاہر کرنا تھا اور اپنی حجت پوری کرنا تھی اس ملعون کی اس درخواست کو منظور فرما لیا ۔ اس حکام پر کسی کی حکومت نہیں، اس کے سامنے بولنے کی کسی کو مجال نہیں ، کوئی نہیں جو اس کے ارادے کو ٹال سکے، کوئی نہیں جو اس کے حکم کو بدل سکے ۔ وہ سریع الحساب ہے ۔

Select your favorite tafseer