وَ لَقَدۡ مَکَّنّٰکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ جَعَلۡنَا لَکُمۡ فِیۡہَا مَعَایِشَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ ﴿٪۱۰﴾

(10 - الاعراف)

Qari:


And We have certainly established you upon the earth and made for you therein ways of livelihood. Little are you grateful.

اور ہم ہی نے زمین میں تمہارا ٹھکانہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے سامان معشیت پیدا کئے۔ (مگر) تم کم ہی شکر کرتے ہو

[وَلَقَدْ: اور بیشک] [مَكَّنّٰكُمْ: ہم نے تمہیں ٹھکانہ دیا] [فِي الْاَرْضِ: زمین میں] [وَجَعَلْنَا: اور ہم نے بنائے] [لَكُمْ: تمہارے لیے] [فِيْهَا: اس میں] [مَعَايِشَ: زندگی کے سامان] [قَلِيْلًا: بہت کم] [مَّا تَشْكُرُوْنَ: جو تم شکر کرتے ہو]

Tafseer / Commentary

اللہ تعالیٰ کے احسانات
اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ اس نے زمین اپنے بندوں کے رہنے سہنے کیلئے بنائی ۔ اس میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیئے کہ ہلے جلے نہیں اس میں چشمے جاری کئے اس میں منزلیں اور گھر بنانے کی طاقت انسان کو عطا فرمائی اور بہت سے نفع کی چیزیں اس لئے پیدائش فرمائیں ۔ ابر مقرر کر کے اس میں سے پانی برسا کر ان کے لئے کھیت اور باغات پیدا کئے ۔ تلاش معاش کے وسائل مہیا فرمائے ۔ تجارت اور کمائی کے طریقے سکھا دیئے ۔ باوجود اس کے اکثر لوگ پوری شکر گذاری نہیں کرتے ایک آیت میں فرمان ہے (وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 14-ابراھیم34) یعنی اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے بیٹھو تو یہ بھی تمہارے بس کی بات نہیں ۔ لیکن انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے معایش تو جمہور کی قرأت ہے لیکن عبدالرحمن بن ہرمز اعرج معایش پڑھتے ہیں اور ٹھیک وہی ہے جس پر اکثریت ہے اس لئے کہ (معایش) جمع ہے (معیشتہ) کی ۔ اس کا باب (عاش یعیش عیشا) ہے (معیشتہ) کی اصل (معیشتہ) ہے ۔ کسر ہے پر تقلیل تھا نقل کر کے ماقیل کو دیا (معیشتہ) ہو گیا لیکن جمع کے وقت پھر کسر ہے پر آ گیا کیونکہ اب ثقل نہ رہا پس مفاعل کے وزن پر (معایش) ہو گیا کیونکہ اس کلمہ میں یا اصلی ہے ۔ بخلاف مدائین، صہائف اور بصائر کے جو مدینہ ، صحیفہ اور بصیرہ کی جمع ہے باب مدن صحف اور ابصر سے ان میں چونکہ یا زائد ہے اس لئے ہمزہ دی جاتی ہے اور مفاعل کے وزن پر جمع آتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔

Select your favorite tafseer